Zikar Jab Chid Gaya Un Ki

موسیقی
چشمِ ساقی سے
طلب کر کے گلابی ڈورے
دل کے زخموں کو کہیں بیٹھ کے سی لیتا ہوں
ساغرِ مئے تو
بڑی چیز ہے اک نعمت ہے
اشک بھی آنکھ میں بھر آئیں تو پی لیتا ہوں
ذکر جب چِھڑ گیا ان کی انگڑائی کا
میری نظر کو
میری نظر کو جنوں کا پیام دے ساقی
میری حیات کو لافانی شام دے ساقی
یہ روز روز کا
یہ روز روز کا پینا مجھے پسند نہیں
کبھی نہ ہوش میں آؤں وہ جام دے ساقی
ذکر جب چِھڑ گیا ان کی انگڑائی کا
شاخ سے پھول یوں ٹوٹ کر گر پڑے
ذکر جب چِھڑ گیا ان کی انگڑائی کا
شاخ سے پھول یوں ٹوٹ کر گر پڑے
جیسے دلہن کوئی پیار کی گود میں
زندگی کے مزے لُوٹ کر گر پڑے
ذکر جب چِھڑ گیا ان کی انگڑائی کا
شاخ سے پھول یوں ٹوٹ کر گر پڑے گا
ذکر جب چِھڑ گیا ان کی انگڑائی کا
موسیقی
ہوتی نہیں وفا تو جفا ہی کیا کرو
تم بھی تو کوئی رسمِ محبت ادا کرو
ہم تم پہ مر مٹے تو یہ کس کا قصور ہے
آئینہ لے کے ہاتھ میں خود فیصلہ کرو
اب ان پہ کوئی بات کا ہوتا نہیں اثر
منت کرو سوال کرو التجا کرو
شرمندہ ہوں کہ موت بھی آتی نہیں مجھے
تم میرے لئے اب تو کوئی بد دعا کرو
بیٹھو نہ محفلوں میں زمانہ خراب ہے
دیکھو ہماری بات کبھی سُن لیا کرو
شاہد کبھی تو دیکھے گا وہ تم کو جھانک کر
اس کی گلی میں روز تماشہ کیا کرو
حسن والوں کی گلیوں سے میت میری رکھ کے کاندھے پہ جس دم اٹھائی گئی
حسن والوں کی
حسن والوں کی گلیوں سے میت میری رکھ کے کاندھے پہ جس دم اٹھائی گئی
کنگھیاں گیسوؤں میں پھنسی رہ گئیں
آئینے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑے
کنگھیاں گیسوؤں میں پھنسی رہ گئیں
آئینے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑے
ذکر جب چِھڑ گیا ان کی انگڑائی کا
شاخ سے پھول یوں ٹوٹ کر گر پڑے
ذکر جب چِھڑ گیا ان کی انگڑائی کا
موسیقی
مجھ کو دیوانہ سمجھتے ہیں تیرے شہر کے لوگ
میرے دامن سے الجھتے ہیں تیرے شہر کے لوگ
اور کیا دوں میں تجھے اپنی وفاؤں کا ثبوت
اب میرے حال پہ ہنستے ہیں تیرے شہر کے لوگ
میں گیا وقت ہوں واپس نہیں آنے والا
کیوں میرا راستہ تکتے ہیں تیرے شہر کے لوگ
دل کی باتوں کو لب پر نہیں لاتے لیکن
مجھ پہ آوازیں تو کستے ہیں تیرے شہر کے لوگ
میرے محبوب نے مسکراتے ہوئے جب نقاب اپنے چہرے سے سرکا دیا
میرے محبوب
میرے محبوب نے مسکراتے ہوئے جب نقاب اپنے چہرے سے سرکا دیا
چودھویں رات کا چاند شرما گیا
جتنے تارے تھے سب ٹوٹ کر گر پڑے
چودھویں رات کا چاند شرما گیا
جتنے تارے تھے سب ٹوٹ کر گر پڑے
ذکر جب چِھڑ گیا ان کی انگڑائی کا
شاخ سے پھول یوں ٹوٹ کر گر پڑے
ذکر جب چِھڑ گیا
موسیقی
تو نے مئے خانہ نگاہوں میں چُھپا رکھا ہے
ہوش والوں کو بھی دیوانہ بنا رکھا ہے
ناز کیسے نہ کروں بندہ نوازی پہ تیری
مجھ سے ناچیز کو جب اپنا بنا رکھا ہے
ہر قدم سجدے بصد شوق کیا کرتے ہیں
ہم نے کعبہ تیرے کوچے میں بنا رکھا ہے
اے میرے پردہ نشیں تیری توجہ کے نثار
میں نے دنیا سے تیرا عشق چُھپا رکھا ہے
جو بھی غم ملتا ہے سینے سے لگا لیتا ہوں
میں نے ہر درد کو تقدیر بنا رکھا ہے
بخش کر آپ میں احساس کی دولت مجھ کو
یہ بھی کیا کم ہے کہ انسان بنا رکھا ہے
کیا بتاؤں کہ مایوس آنسو میرے کس طرح ٹوٹ کر زیبِ داماں ہوئے
کیا بتاؤں
کیا بتاؤں کہ مایوس آنسو میرے کس طرح ٹوٹ کر زیبِ داماں ہوئے
نرم بستر پہ
نرم بستر پہ جیسے کوئی گل بدن
اپنے محبوب سے روٹھ کر گر پڑے
ذکر جب چِھڑ گیا ان کی انگڑائی کا
شاخ سے پھول یوں ٹوٹ کر گر پڑے
ذکر جب چِھڑ گیا ان کی انگڑائی کا
موسیقی
اپنے چہرے پہ
اپنے چہرے پہ زلفیں بِکھیرے ہوئے حالِ دل مجھ سے وہ پوچھنے آئے تھے
کتنے لوگوں کی
کتنے لوگوں کی نیت میں بال آ گئے
کتنے جام ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑے
کتنے لوگوں کی نیت میں بال آ گئے
کتنے جام ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑے
ذکر جب چِھڑ گیا ان کی انگڑائی کا
شاخ سے پھول یوں ٹوٹ کر گر پڑے
جیسے دلہن کوئی پیار کی گود میں
زندگی کے مزے لُوٹ کر گر پڑے
ذکر جب چِھڑ گیا ان کی انگڑائی کا



Credits
Writer(s): Attaullah Khan Essakhailvi
Lyrics powered by www.musixmatch.com

Link