Bewafa Tera Yun Muskurana

مجھے اپنی پستی کی شرم ہے
مجھے اپنی پستی کی شرم ہے
تیری رفعتوں کا خیال ہے
مگر اپنے دل کو میں کیا کروں اسے پھر بھی شوقِ وصال ہے
انہیں ضد ہے عرضِ وصال سے
مجھے شوقِ عرضِ وصال ہے
وہی اب بھی اُن کا جواب ہے وہی اب بھی میرا سوال ہے
تیری یاد میں
تیری یاد میں ہوا جب سے گُم
تیرے گمشدہ کا یہ حال ہے
کہ نہ دور ہے نہ قریب ہے نہ فراق ہے نہ وصال ہے
آہنگ
آہنگ آگ رنگ روانی اٹھا کے لا
خوشیوں کا ناچتا ہوا پانی اٹھا کے لا
کہتے ہیں عمرِ رفتہ کبھی لَوٹتی نہیں
جا مئے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
یاد آندم۔۔۔۔۔
او یاد آندم او ویلا لوکو!
تے جَڈاں ماہی نال وَسدے ہَاسے
ہر ویلے رَل بانہدے ہاسے تے ہِک بَئے توں وِسدے ناسے
میکوں سمجھ نی آندی میڈا رب جانڑیں ماہی ٹُر گیا کَیڑھے پاسے
اکھیاں رو وَنڑ دل کُرلاوے بھل گئی اں خوشیاں تے ہاسے
بے وفا یوں
بے وفا یوں تیرا مُسکرانا بھول جانے کے قابل نہیں ہے
بے وفا یوں
بے وفا یوں تیرا مُسکرانا بھول جانے کے قابل نہیں ہے
میں نے جو زخم
میں نے جو زخم کھایا ہے دل پر
وہ دِکھانے کے قابل نہیں ہے
بے وفا یوں تیرا مُسکرانا
ترچھی ترچھی نظر کے میں قرباں
تیری آنکھیں ہیں یا مئے کے پیالے
نظر ملا کے
نظر ملا کے میرے پاس آ کے لُوٹ لیا
نظر ہٹی تھی کہ پھر مُسکرا کے لُوٹ لیا
دُہائی ہے
دُہائی ہے میرے الله تیری دُہائی ہے
کسی نے مجھ سے بھی مجھ کو چُھپا کے لُوٹ لیا
ترچھی ترچھی نظر کے میں قرباں
تیری آنکھیں ہیں یا مئے کے پیالے
تیری آنکھیں ہیں یا مئے کے پیالے
جس کو تو نے
جس کو تو نے نظر سے پلایا ہوش پھر اس کو آیا نہیں ہے
جس کو تو نے نظر سے پلایا ہوش پھر اس کو آیا نہیں ہے
بے وفا یوں تیرا
میں نے خط لکھ کے ان کو بُلایا آ کے قاصد نے دُکھڑا سنایا
اب تو آؤ
وے سجنا! موری کٹتی جائے عمریا
اب تو آؤ پاس ہمارے دل کے سہارے آنکھ کے تارے
بِیت چلیں مہتاب کی راتیں پیار کے میٹھے خواب کی راتیں
ہجر کے دن بھی کتنے گزارے اب تو آؤ پاس ہمارے
کالے کوساں چھاؤنی چھائی دل سے ہماری یاد بُھلائی
بیٹھے ہو کب سے ہم کو بِسارے اب تو آؤ پاس ہمارے
اور خوش ہے بلبل
خوش ہے بلبل پھول کے غم سے اور پتنگا شمع کے دم سے
ہائے جیئیں ہم کس کے سہارے لوٹ کے آؤ سجن ہمارے
میں نے خط لکھ کے ان کو بُلایا آ کے قاصد نے دُکھڑا سُنایا
میں نے خط لکھ کے ان کو بُلایا آ کے قاصد نے دُکھڑا سُنایا
اُن کے پاؤں میں
اُن کے پاؤں میں مہندی لگی ہے
اُن کے پاؤں میں مہندی لگی ہے آنے جانے کے قابل نہیں ہے
اُن کے پاؤں میں مہندی لگی ہے
آنے جانے کے قابل نہیں ہے
بے وفا یوں تیرا
جیڑھے عشق تیڈے وچ غرق ہوئے
او تاں کم دنیا دے بُھل گئے
راہندے یاد تیڈی وچ ہر ویلے سُک کانا جنگلاں رُل گئے
اِینویں کَھنڈ پانی وچ گُھل ویندی اُوویں عشق تیڈے وچ گُھل گئے
باجھوں یار دیدار تائیں دلبر دے او تاں دین ایمان وی بُھل گئے
جب سے دیکھا ہے جلوہ تمہارا کوئی آنکھوں میں جچتا نہیں ہے
کوئی زلفاں وے چَھلّے وو چَھلّے
کوئی زلفاں وے چَھلّے وو چَھلّے
سوہنڑے تاں بہوں وسدے وے میڈے سجنڑ تُوں تَلّے وو تَلّے
سوہنڑے تاں بہوں وسدے وے میڈے یار تُوں تَلّے وو تَلّے
جب سے دیکھا ہے جلوہ تمہارا کوئی آنکھوں میں جچتا نہیں ہے
کوئی آنکھوں میں جچتا نہیں ہے
لاکھ دیکھے
لاکھ دیکھے یہاں حُسن والے
کوئی عالم میں تجھ سا نہیں ہے
لاکھ دیکھے یہاں حُسن والے کوئی عالم میں تجھ سا نہیں ہے
بے وفا یوں
آئے ہو آ کے جانے لگے ہو یہ بھی کیا دل لگی دل لگی ہے
جہاں میں تُو ہی تو میری جستجو ہے تمنا بھی تُو تُو ہی آرزو ہے
ہے چاہت بھی تُو اور محبت بھی تُو ہے
میری زندگی کی عبادت بھی تُو ہے
خیالوں میں تُو ہے خوابوں میں تُو ہے
نگاہوں میں تُو ہے سانسوں میں تُو ہے
کہ میری محبت کے قابل تمہی ہو میری زندگانی کا حاصل تمہی ہو
تیری جستجو میں جیئوں گا مروں گا
محبت جو کی ہے تو تجھ سے کروں گا
آئے ہو آ کے جانے لگے ہو یہ بھی کیا دل لگی دل لگی ہے
یہ بھی کیا دل لگی دل لگی ہے
میری نظریں
میری نظریں ابھی تک ہیں پیاسی
میری نظریں ابھی تک ہیں پیاسی
میں نے جی بھر کے دیکھا نہیں ہے
میری نظریں ابھی تک ہیں پیاسی میں نے جی بھر کے دیکھا نہیں ہے
بے وفا یوں
میں نے پوچھا کے کل شب کہاں تھے؟
پہلے شرمائے پھر جل کے بولے
وے سُرخی کَجلا رَول ڈِتُمّ
تھئے کپڑے مَیل کُچَیلے
کیا دھانواں کیا کپڑے پانواں تے کیا لانواں عَطر فُلیَل اے
یار باجھوں ہُنڑ جیونڑ کُوڑ اے اتے موت مارُم چا پھیل اے
آبِ حیات ہے رُخ دلبر دا او فرید کرے رب مِیل اے
میں نے پوچھا کہ کل شب کہاں تھے؟
پہلے شرمائے پھر جل کے بولے
پہلے شرمائے پھر جل کے بولے
آپ وہ بات
آپ وہ بات کیوں پوچھتے ہیں
جو بتانے کے قابل نہیں ہے
آپ وہ بات کیوں پوچھتے ہیں
جو بتانے کے قابل نہیں ہے
بے وفا یوں
تیر و تلوار تم مت اٹھاؤ
کیوں یہ کرتے ہو بیکار زحمت
کیوں یہ کرتے ہو بیکار زحمت
جانتے ہیں
جانتے ہیں تمہاری کلائی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے
جانتے ہیں تمہاری کلائی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے
بے وفا یوں
بے رحم نوں قاصد ونج آکھیں
ساڈے مِلنڑ دی تانگ لہا چھوڑیں
اج سارے سانگے مُک گئے نی
میڈے پیار تے مِٹیاں پا چھوڑیں
آویں لاش میڈے تے سج دھج کے لکھ غیر ہوسن راہویں منہ کج کے
پِچھے تنہا رو وِیں رج رج کے پہلے کفن دے بند بندھوا چھوڑیں
جس ویلے لاش نوں خاک کریں
پڑھ ختم قرآن دا آپ کریں
ہتھ رکھ کے قبر تے معاف کریں
کر مویاں نال وفا چھوڑیں
بے وفا یوں تیرا مُسکرانا بھول جانے کے قابل نہیں ہے
شیشہ پتھر سے ٹکرا کے ٹوٹا ٹوٹنے کی صدا سب نے سُن لی
شیشہ پتھر سے ٹکرا کے ٹوٹا ٹوٹنے کی صدا سب نے لی
دل کسی کا
دل کسی کا اگر ٹوٹ جائے
دل کسی کا اگر ٹوٹ جائے کوئی آواز سنتا نہیں ہے
دل کسی کا اگر ٹوٹ جائے کوئی آواز سنتا نہیں ہے
بے وفا یوں
خیال کو
سامعین!
خیال کو کسی آہٹ کی آس رہتی ہے
نگاہ کو کسی صورت کی پیاس رہتی ہے
تیرے بغیر کسی چیز کی کمی تو نہیں
تیرے بغیر طبیعت اداس رہتی ہے
عاشقی کا تقاضا یہی ہے
ہم نہ بدلیں نہ تم ہم سے بدلو
عاشقی کا تقاضا یہی ہے
ہم نہ بدلیں نہ تم ہم سے بدلو
تم تو ایسے
تم تو ایسے بدلنے لگے ہو
آج تک کوئی بدلا نہیں ہے
تم تو ایسے بدلنے لگے ہو
آج تک کوئی بدلا نہیں ہے
بے وفا یوں تیرا مُسکرانا
سُنڑ وے ماہی۔۔۔!!! قسم خدا دی
جند لائی ہِمّ تیڈے ناں ویں الله بھانویں
واسطے رب دے جیویں شالا
میڈیاں لگیاں توڑ نبھانویں لاج نہ لانویں
موت تے فوت تاں ہر دے نال اے
تے چا ٹوٹا کفن دا پانویں شان ودھانویں
ابھریم تاں قبروں آواز اے ڈے سی
سوہنڑاں مُکھڑا آنڑ وِکھانویں نہ ترسانویں
میں نے پوچھا کہ پھر کب ملو گے
پہلے شرمائے پھر ہنس کے بولے
میں پوچھا کہ پھر کب ملو گے
پہلے شرمائے پھر ہنس کے بولے
تم تو دل میں
تم تو دل میں سمائے ہوئے ہو
ملنے کی ضرورت نہیں ہے
تم تو دل میں سمائے ہوئے ہو
ملنے کی ضرورت نہیں ہے
بے وفا یوں
ساقیا!
بڑے کام کی بات ہے سائیں!
ساقیا! میری عقیدت کو نہ دھوکہ دینا
میں تیری آنکھ کی نیت سے خبردار نہیں
اور سوچ لو راہ میں مجھ کو نہ پریشاں کرنا
راستہ زیست کا کہتے ہیں کہ ہموار نہیں
سوچ لو دل لگانے سے پہلے
لوگ بدنام کر دیں گے تجھ کو
سوچ لو دل لگانے سے پہلے
لوگ بدنام کر دیں گے تم کو
پیار کو چاہے
پیار کو چاہے جتنا چُھپاؤ
یہ چُھپانے سے چُھپتا نہیں ہے
پیار کو چاہے جتنا چُھپاؤ
یہ چُھپانے سے چُھپتا نہیں ہے
بے وفا یوں تیرا مُسکرانا
جِتھے ونج وسیا ایں
وے جِتھے ونج وسیا ایں شالا وسدا راہویں
تے میڈی تاں راہ نہ گئی اے کئی بُھل پئی اے
رب کئیں دے نال نہ کرے وے لوکو
جیڑھی میڈے نال تھی گئی اے کئی بُھل پئی اے
قسم خدا دی باجھ سجنڑ دے
میڈی سُنج حویلی تھئی اے کئی بُھل پئی اے
تیڈے باجھوں جیڑھا حال وِچھوڑے کیتُم
ہک الله میڈا سائیں اے کئی بُھل پئی اے
میں نے جب بھی کی عرضِ تمنا
زلف کی طرح بل کھا کے بولے
تو ڈھونڈ فلک پر
تو ڈھونڈ فلک پہ باغِ ارم اپنا تو عقیدہ ہے زاہد
ارے جس خاک پہ دو دل پیار کریں وہ خاک بھی جنت ہوتی ہے
میں نے جب بھی کی عرضِ تمنا
زلف کی طرح بل کھا کے بولے
ایسے عاشق کو
ایسے عاشق کو سولی چڑھا دو
ایسے عاشق کو سولی چڑھا دو
رحم کھانے کے قابل نہیں ہے
ایسے عاشق کو سولی چڑھا دو
رحم کھانے کے قابل نہیں ہے
بے وفا یوں تیرا مُسکرانا بھول جانے کے قابل نہیں ہے
میں نے جو زخم کھایا ہے دل پر
وہ دِکھانے کے قابل نہیں ہے
بے وفا۔۔۔



Credits
Writer(s): Anwar, Khailvi Atauallah Eisa
Lyrics powered by www.musixmatch.com

Link