Dastoor

دی
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں، کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
کیوں ڈراتے ہو
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے، تم کہو، تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے، تم کہو، تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے، تم کہو

اس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
اس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا



Credits
Writer(s): Habib Jalib, Mohammed Akbar
Lyrics powered by www.musixmatch.com

Link