Gardishon Ke

گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ
دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ
دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ
دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں

جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر
دوستوں کے لگائے ہوئے ہیں
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ

جب سے دیکھا تِرا قد و قامت
دل پہ ٹوٹی ہوئی ہے قیامت

ہر بلا سے رہے تُو سلامت
ہر بلا سے رہے تُو سلامت
دن جوانی کے آئے ہوئے ہیں
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ

اور دے مجھ کو، دے اور، ساقی
ہوش رہتا ہے تھوڑا سا باقی

آج تلخی بھی ہے انتہا کی
آج تلخی بھی ہے انتہا کی
آج وہ بھی پرائے ہوئے ہیں
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ

کل تھے آباد پہلو میں میرے
آج غیروں کی محفل میں ڈیرے

میری محفل میں کر کے اندھیرے
میری محفل میں کر کے اندھیرے
اپنی محفل سجائے ہوئے ہیں
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ

مہ وشوں کو وفا سے کیا مطلب
اِن بتوں کو خدا سے کیا مطلب

اِن کی معصوم نظروں نے، ناصرؔ
اِن کی معصوم نظروں نے، ناصرؔ
لوگ پاگل بنائے ہوئے ہیں

گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ
دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ



Credits
Lyrics powered by www.musixmatch.com

Link