Saaf Chuptay Bhi Nahin

صاف چھپتے بھی نہ تھے، سامنے آتے بھی نہ تھے
کیسا پردہ تھا کہ پردے کو گراتے بھی نہ تھے
صاف چھپتے بھی نہ تھے، سامنے آتے بھی نہ تھے

ہائے، وہ سرمگیں آنکھوں میں حیا کی سرخی
وہ ہر انداز میں، ہر ناز میں معصومی سی

ہائے، وہ جلوے کہ نظروں میں سماتے بھی نہ تھے
صاف چھپتے بھی نہ تھے، سامنے آتے بھی نہ تھے

حسن ایسا کہ جو افسانوں کا عنوان بنے
اور قد سینکڑوں فتنوں کا جو سامان بنے

اِتنے سادہ تھے کہ فتنوں کو جگاتے بھی نہ تھے
صاف چھپتے بھی نہ تھے، سامنے آتے بھی نہ تھے

حسن اور عشق میں یوں پہلی ملاقات ہوئی
بات کوئی نہ ہوئی پھر بھی ہر اک بات ہوئی

خود کھنچے آتے تھے اور ہم کو بلاتے بھی نہ تھے
صاف چھپتے بھی نہ تھے، سامنے آتے بھی نہ تھے



Credits
Writer(s): Saleem Raza
Lyrics powered by www.musixmatch.com

Link