Gar Mujhe Is Ka Yaqeen Ho

گر مجھے اِس کا یقیں ہو، مِرے ہمدم، مِرے دوست
گر مجھے اِس کا یقیں ہو کہ تِرے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی، تِرے سینے کی جلن
میری دل جوئی، مِرے پیار سے مٹ جائے گی

گر مِرا حرفِ تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر تِرا اجڑا ہوا بے نور دماغ
تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ہو جائے
گر مجھے اِس کا یقیں ہو، مِرے ہمدم، مِرے دوست

روز و شب، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں تجھے گیت سناتا رہوں ہلکے، شیریں
آبشاروں کے، بہاروں کے، چمن زاروں کے گیت
آمدِ صبح کے، مہتاب کے، سیاروں کے گیت
تجھ سے میں حسن و محبت کی حکایات کہوں

کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ہیں
کیسے اک چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ہیں

کس طرح عارضِ محبوب کا شفاف بلور
یک بیک بادۂ احمر سے دہک جاتا ہے
کیسے گلچیں کے لیے جھکتی ہے خود شاخِ گلاب
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ہے

یوں ہی گاتا رہوں، گاتا رہوں تیری خاطر
گیت بنتا رہوں، بیٹھا رہوں تیری خاطر
پر مِرے گیت تِرے دکھ کا مداوا ہی نہیں

نغمہ جراح نہیں، مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں، مرہمِ آزار سہی
تیرے آزار کا...
تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا مِرے قبضے میں نہیں
اِس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں، مگر تیرے سوا، تیرے سوا، تیرے سوا



Credits
Writer(s): Tina Sani
Lyrics powered by www.musixmatch.com

Link