Yeh Kaghazi Phool Jaise Chehre

یہ لوگ پتھر کے دل ہیں جن کے نمائش رنگ میں ہیں ڈوبے

یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اُڑاتے ہیں آدمی کا
اِنہیں کوئی کاش یہ بتا دے، مقام اونچا ہے سادگی کا

اِنہیں بھلا زخم کی خبر کیا کہ تیر چلتے ہوئے نہ دیکھا
اُداس آنکھوں میں آرزو کا خون جلتے ہوئے نہ دیکھا

اندھیرا چھایا ہے اِن کے آگے حسین غفلت کی روشنی کا
یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اُڑاتے ہیں آدمی کا

یہ صحن گلسن میں جب گئے ہیں بہار ہی لُوٹ لے گئے ہیں
جہاں گئے ہیں یہ دو دلوں کا قرار ہی لُوٹنے گئے ہیں

کے دل دکھانا ہے اِن کا شیوہ، اِنہیں ہے احساس کب کسی کا
یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اُڑاتے ہیں آدمی کا

میں جھوٹ کی جگمگاتی محفل میں آج سچ بولنے لگا ہوں
میں ہو کے مجبور اپنے گیتوں میں زہر پھر گھولنے لگا ہوں

یہ زہر شاید اُڑا دے نشا غرور میں ڈوبی زندگی کا
یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اُڑاتے ہیں آدمی کا
اِنہیں کوئی کاش یہ بتا دے، مقام اونچا ہے سادگی کا
یہ کاغذی پھول جیسے چہرے



Credits
Writer(s): Mehdi Hassan
Lyrics powered by www.musixmatch.com

Link