Kuch Aise Zakham Bhi
کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں
جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں
جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی...
یہ کیا بتائیں کہ ہم کیا گنوا کے آئے ہیں
یہ کیا بتائیں کہ ہم کیا گنوا کے آئے ہیں
بس اک ضمیر بہ مشکل بچا کے لائے ہیں
بس اک ضمیر بہ مشکل بچا کے لائے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی...
یہ کربِ تشنہ لبی...
یہ کربِ تشنہ لبی اب ہمیں قبول نہیں
یہ کربِ تشنہ لبی اب ہمیں قبول نہیں
کچھ آج سوچ کے ہم مَے کدے میں آئے ہیں
کچھ آج سوچ کے ہم مَے کدے میں آئے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی...
کوئی ہواؤں سے کہہ دے اِدھر کا رکھ نہ کرے
کوئی ہواؤں سے کہہ دے اِدھر کا رکھ نہ کرے
چراغ ہم نے سمجھ بوجھ کر جلائے ہیں
چراغ ہم نے سمجھ بوجھ کر جلائے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی...
جہاں بھی ہم نے صدا دی...
جہاں بھی ہم نے صدا دی، یہی جواب ملا
جہاں بھی ہم نے صدا دی، یہی جواب ملا
"یہ کون لوگ ہیں، پوچھو کہاں سے آئے ہیں
یہ کون لوگ ہیں، پوچھو کہاں سے آئے ہیں"
کچھ ایسے زخم بھی...
اُنھیں پرائے چراغوں سے کیا غرض، اقبالؔ
اُنھیں پرائے چراغوں سے کیا غرض، اقبالؔ
جو اپنے گھر کے دیے خود بجھا کے آئے ہیں
جو اپنے گھر کے دیے خود بجھا کے آئے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی...
کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں
جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں
جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی...
یہ کیا بتائیں کہ ہم کیا گنوا کے آئے ہیں
یہ کیا بتائیں کہ ہم کیا گنوا کے آئے ہیں
بس اک ضمیر بہ مشکل بچا کے لائے ہیں
بس اک ضمیر بہ مشکل بچا کے لائے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی...
یہ کربِ تشنہ لبی...
یہ کربِ تشنہ لبی اب ہمیں قبول نہیں
یہ کربِ تشنہ لبی اب ہمیں قبول نہیں
کچھ آج سوچ کے ہم مَے کدے میں آئے ہیں
کچھ آج سوچ کے ہم مَے کدے میں آئے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی...
کوئی ہواؤں سے کہہ دے اِدھر کا رکھ نہ کرے
کوئی ہواؤں سے کہہ دے اِدھر کا رکھ نہ کرے
چراغ ہم نے سمجھ بوجھ کر جلائے ہیں
چراغ ہم نے سمجھ بوجھ کر جلائے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی...
جہاں بھی ہم نے صدا دی...
جہاں بھی ہم نے صدا دی، یہی جواب ملا
جہاں بھی ہم نے صدا دی، یہی جواب ملا
"یہ کون لوگ ہیں، پوچھو کہاں سے آئے ہیں
یہ کون لوگ ہیں، پوچھو کہاں سے آئے ہیں"
کچھ ایسے زخم بھی...
اُنھیں پرائے چراغوں سے کیا غرض، اقبالؔ
اُنھیں پرائے چراغوں سے کیا غرض، اقبالؔ
جو اپنے گھر کے دیے خود بجھا کے آئے ہیں
جو اپنے گھر کے دیے خود بجھا کے آئے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں
کچھ ایسے زخم بھی...
Credits
Writer(s): Iqbal Bano, Iqbal Azeem
Lyrics powered by www.musixmatch.com
Link
Other Album Tracks
© 2024 All rights reserved. Rockol.com S.r.l. Website image policy
Rockol
- Rockol only uses images and photos made available for promotional purposes (“for press use”) by record companies, artist managements and p.r. agencies.
- Said images are used to exert a right to report and a finality of the criticism, in a degraded mode compliant to copyright laws, and exclusively inclosed in our own informative content.
- Only non-exclusive images addressed to newspaper use and, in general, copyright-free are accepted.
- Live photos are published when licensed by photographers whose copyright is quoted.
- Rockol is available to pay the right holder a fair fee should a published image’s author be unknown at the time of publishing.
Feedback
Please immediately report the presence of images possibly not compliant with the above cases so as to quickly verify an improper use: where confirmed, we would immediately proceed to their removal.