Mozo-E-Sukhan
گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات
اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ
ان کا آنچل ہے کہ رخسار کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں
جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں؟
ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں؟
آج پھر حسن دل آرا کی وہی دھج ہوگی
وہی خوابیدہ سی آنکھیں وہی کاجل کی لکیر
رنگ رخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غبار
صندلی ہاتھ پہ دھندھلی سی حنا کی تحریر
اپنے افکار کی اشعار کی دنیا ہے یہی
جان مضموں ہے یہی شاہد معنیٰ ہے یہی
آج تک سرخ و سیہ صدیوں کے سائے کے تلے
آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے؟
موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گزرے گی اجداد پہ کیا گزری ہے؟
ان دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا!
کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے؟
یہ ہر اک سمت پر اسرار کڑی دیواریں
جل بجھے جن میں ہزاروں کی جوانی کے چراغ
یہ ہر اک گام پہ ان خوابوں کی مقتل گاہیں
جن کے پرتو سے چراغاں ہیں ہزاروں کے دماغ
یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے
لیکن اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے اس جسم کے کمبخت دل آویز خطوط
آپ ہی کہیے کہیں ایسے بھی افسوں ہوں گے
اپنا موضوع سخن ان کے سوا اور نہیں
طبع شاعر کا وطن ان کے سوا اور نہیں
دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات
اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ
ان کا آنچل ہے کہ رخسار کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں
جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں؟
ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں؟
آج پھر حسن دل آرا کی وہی دھج ہوگی
وہی خوابیدہ سی آنکھیں وہی کاجل کی لکیر
رنگ رخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غبار
صندلی ہاتھ پہ دھندھلی سی حنا کی تحریر
اپنے افکار کی اشعار کی دنیا ہے یہی
جان مضموں ہے یہی شاہد معنیٰ ہے یہی
آج تک سرخ و سیہ صدیوں کے سائے کے تلے
آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے؟
موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گزرے گی اجداد پہ کیا گزری ہے؟
ان دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا!
کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے؟
یہ ہر اک سمت پر اسرار کڑی دیواریں
جل بجھے جن میں ہزاروں کی جوانی کے چراغ
یہ ہر اک گام پہ ان خوابوں کی مقتل گاہیں
جن کے پرتو سے چراغاں ہیں ہزاروں کے دماغ
یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے
لیکن اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے اس جسم کے کمبخت دل آویز خطوط
آپ ہی کہیے کہیں ایسے بھی افسوں ہوں گے
اپنا موضوع سخن ان کے سوا اور نہیں
طبع شاعر کا وطن ان کے سوا اور نہیں
Credits
Writer(s): Faiz Ahmed Faiz
Lyrics powered by www.musixmatch.com
Link
Other Album Tracks
Altri album
- Ke Sath Ek Shaam, Vol. 29
- Zia Mohyeddin Ke Sath Ek Shaam, Vol. 26
- Zia Mohyeddin Ke Sath Ek Shaam, Vol. 28
- Zia Mohyeddin Ke Sath Ek Shaam, Vol. 27
- Zia Mohyeddin Ke Sath Ik Sham Mehfil-O-Nasr, Vol. 25
- Zia Mohyeddin Ke Sath Ik Sham Mehfil-O-Nasr, Vol. 24 (Live)
- Zia Mohyeddin Ke Sath Ek Shaam, Vol. 29
- Zia Mohyeddin Show, Vol. 24 (Live)
- Zia Mohyeddin Ke Saat Ek Sham Vol.21
- Zia Mohyeddin Ke Saat Ek Sham, Banaam-E-Faiz
© 2024 All rights reserved. Rockol.com S.r.l. Website image policy
Rockol
- Rockol only uses images and photos made available for promotional purposes (“for press use”) by record companies, artist managements and p.r. agencies.
- Said images are used to exert a right to report and a finality of the criticism, in a degraded mode compliant to copyright laws, and exclusively inclosed in our own informative content.
- Only non-exclusive images addressed to newspaper use and, in general, copyright-free are accepted.
- Live photos are published when licensed by photographers whose copyright is quoted.
- Rockol is available to pay the right holder a fair fee should a published image’s author be unknown at the time of publishing.
Feedback
Please immediately report the presence of images possibly not compliant with the above cases so as to quickly verify an improper use: where confirmed, we would immediately proceed to their removal.