Peer
یہ گانا اُن پیروں کےلئے
جنہوں نے سواری اتنی زندگیاں
اور بانٹی اتنی خوشیاں
پیر فقیر رشی مُنی
کبھی اس دہلیز کبھی اس دہلیز
پیر فقیر رشی مُنی
اس دہلیز کبھی اس دہلیز
پیر فقیر رشی مُنی
کبھی اس دہلیز کبھی اس دہلیز
پیر فقیر رشی مُنی
اس دہلیز کبھی اس دہلیز
انساں نہیں ہوتے خُدا کی دوجی (دوسری) ذات
یہ پُل کا کرتے کام بتاتے چھُپے راز
جہاں سے چاہئے خوشی تمہیں
چاہیئے ہو آرام
جینا ہو سُکون سے
کُچھ کرنا ہو جنون سے
جانا ہو عروج پہ
ہونا مشہور ہو
بدلنا درتور، پہلے سوچنا ضرور
چڑھا کوئی فطور پر
تمہارا نہ کسور
اِن کی صحبت میں رہا کرو
یہ چہرے کا بھی نور
اِس گھر سے اُس گھر یہ رہتے آتے جاتے
تیرے آئینگے دروازے
تو بنانا نہ تماشے
اڑانا نہ مذاق
پوچھنا جو پوچھ
جانکار ہوتے خاصے
نظریں نہ ملانا
جو دیکھو ان کی آنکھیں
چیتا کو دیتے کاندھے
اٹھاتے بھی ہیں جنازے
زندہ کرتے بھی ہیں لاشیں
بند ہوتی راہیں جو
کھولتے نئے راستے
کام ہوتے سیدھے
ٹال دیتے بڑے حادثے
صحبت میں رہا کرو
یہ زِندگی گزاریں
چاند اور ستارے
مانیں اِنکے اشارے
بھٹکے جو مسافر
لگاتے ہیں کنارے
جو نکلے اِنکے ہاتھ سے
وہ دنیا کو سوارے
پوچھنا تو پیروں سے
امتحاں ہوتا کیا
فقیری ہوتا کام کیا
کن فیی کن
وہ بولیں گر ہوجا
وہ ہو جاتا ہے
دور سے سلام
دُنیا کا وشواس
وشواس دُنیا کا کیوں
کرتے نہیں تم
زِندگی اور موت سے
پرے کیوں ہو تم
کیوں کافروں کے ساتھ
دین والوں کے پاس
غریبوں کے گھر
امیروں کے ساتھ
کیوں وقت کی فکر نہیں
کیوں نفس کی غرض نہیں
کیوں دور دُنیا سے
مجبور فِرقے سے
کیوں کریں تیرے حوالے
لوگ خود نی جان
انجان تو تو بلکل
نہ ہو جو تُجھے دھیان
فرقہ پرستی، گھر گھرستی
تھوڑی تھوڑی اصلی
اور تھوڑی تھوڑی نکلی
کیوں مذہب کی چابی سے
کھلتے نہ وہ تالے
جو زنگ سے ہوتے سنے
نہ کھلتے وہ دروازے
فرقہ پرستی، گھر گھرستی
تھوڑی تھوڑی اصلی
اور تھوڑی تھوڑی نکلی
کیوں مذہب کی چابی سے
کھلتے نہ وہ تالے
جو زنگ سے ہوتے سنے
نہ کھلتے وہ دروازے
کتنا ہوتا ہے مُشکِل
فقیری کرنا اختیار
انتہا لکیروں میں
بانٹتے ہیں پیر
جو بننا ہو فقیر
اؤگے اپنی مرضی سے
دِل کو رکھنا گھر پہ
لانا ایک بھی چیز نہیں
پیر کی ہوگی صحبت
اُسکو دینا کبھی بھی رشوت نہیں
اُنیس میل کا فاصلا
پانی اٹھا کے سر پر
سر سے نکلا خون
کیڑے ہوئے زخم پر
گھڑا تھا جو سر پر
وہ مٹّی کا تھا برتن
پیر پوچھے کیا ہوا
کیا کروگے جان کر
پیر لگائے پاك تھوک
زخم ہوا ہے رُخصت
شاگرد ہوتے سچے
ہوتی خالی انکی سوچ
جو جان کرے قربان
نہ ہوتے اُن پہ بوجھ
پیر ہوئے ہیں کتنے
کتنی زیارتیں بنی
کتنوں کی زندگی سواری
کتنی راحتیں مِلی
پیر ہوئے ہیں کتنے
کتنی زیارتیں بنی
کتنوں کی زندگی سواری
کتنی راحتیں مِلی
جو مانوگے نہ باتیں
ہوگا کُچھ بھی خاص نہیں
پر کروگے یقین
زِندگی میں کچھ بگاڑ نہیں
جنہوں نے سواری اتنی زندگیاں
اور بانٹی اتنی خوشیاں
پیر فقیر رشی مُنی
کبھی اس دہلیز کبھی اس دہلیز
پیر فقیر رشی مُنی
اس دہلیز کبھی اس دہلیز
پیر فقیر رشی مُنی
کبھی اس دہلیز کبھی اس دہلیز
پیر فقیر رشی مُنی
اس دہلیز کبھی اس دہلیز
انساں نہیں ہوتے خُدا کی دوجی (دوسری) ذات
یہ پُل کا کرتے کام بتاتے چھُپے راز
جہاں سے چاہئے خوشی تمہیں
چاہیئے ہو آرام
جینا ہو سُکون سے
کُچھ کرنا ہو جنون سے
جانا ہو عروج پہ
ہونا مشہور ہو
بدلنا درتور، پہلے سوچنا ضرور
چڑھا کوئی فطور پر
تمہارا نہ کسور
اِن کی صحبت میں رہا کرو
یہ چہرے کا بھی نور
اِس گھر سے اُس گھر یہ رہتے آتے جاتے
تیرے آئینگے دروازے
تو بنانا نہ تماشے
اڑانا نہ مذاق
پوچھنا جو پوچھ
جانکار ہوتے خاصے
نظریں نہ ملانا
جو دیکھو ان کی آنکھیں
چیتا کو دیتے کاندھے
اٹھاتے بھی ہیں جنازے
زندہ کرتے بھی ہیں لاشیں
بند ہوتی راہیں جو
کھولتے نئے راستے
کام ہوتے سیدھے
ٹال دیتے بڑے حادثے
صحبت میں رہا کرو
یہ زِندگی گزاریں
چاند اور ستارے
مانیں اِنکے اشارے
بھٹکے جو مسافر
لگاتے ہیں کنارے
جو نکلے اِنکے ہاتھ سے
وہ دنیا کو سوارے
پوچھنا تو پیروں سے
امتحاں ہوتا کیا
فقیری ہوتا کام کیا
کن فیی کن
وہ بولیں گر ہوجا
وہ ہو جاتا ہے
دور سے سلام
دُنیا کا وشواس
وشواس دُنیا کا کیوں
کرتے نہیں تم
زِندگی اور موت سے
پرے کیوں ہو تم
کیوں کافروں کے ساتھ
دین والوں کے پاس
غریبوں کے گھر
امیروں کے ساتھ
کیوں وقت کی فکر نہیں
کیوں نفس کی غرض نہیں
کیوں دور دُنیا سے
مجبور فِرقے سے
کیوں کریں تیرے حوالے
لوگ خود نی جان
انجان تو تو بلکل
نہ ہو جو تُجھے دھیان
فرقہ پرستی، گھر گھرستی
تھوڑی تھوڑی اصلی
اور تھوڑی تھوڑی نکلی
کیوں مذہب کی چابی سے
کھلتے نہ وہ تالے
جو زنگ سے ہوتے سنے
نہ کھلتے وہ دروازے
فرقہ پرستی، گھر گھرستی
تھوڑی تھوڑی اصلی
اور تھوڑی تھوڑی نکلی
کیوں مذہب کی چابی سے
کھلتے نہ وہ تالے
جو زنگ سے ہوتے سنے
نہ کھلتے وہ دروازے
کتنا ہوتا ہے مُشکِل
فقیری کرنا اختیار
انتہا لکیروں میں
بانٹتے ہیں پیر
جو بننا ہو فقیر
اؤگے اپنی مرضی سے
دِل کو رکھنا گھر پہ
لانا ایک بھی چیز نہیں
پیر کی ہوگی صحبت
اُسکو دینا کبھی بھی رشوت نہیں
اُنیس میل کا فاصلا
پانی اٹھا کے سر پر
سر سے نکلا خون
کیڑے ہوئے زخم پر
گھڑا تھا جو سر پر
وہ مٹّی کا تھا برتن
پیر پوچھے کیا ہوا
کیا کروگے جان کر
پیر لگائے پاك تھوک
زخم ہوا ہے رُخصت
شاگرد ہوتے سچے
ہوتی خالی انکی سوچ
جو جان کرے قربان
نہ ہوتے اُن پہ بوجھ
پیر ہوئے ہیں کتنے
کتنی زیارتیں بنی
کتنوں کی زندگی سواری
کتنی راحتیں مِلی
پیر ہوئے ہیں کتنے
کتنی زیارتیں بنی
کتنوں کی زندگی سواری
کتنی راحتیں مِلی
جو مانوگے نہ باتیں
ہوگا کُچھ بھی خاص نہیں
پر کروگے یقین
زِندگی میں کچھ بگاڑ نہیں
Credits
Writer(s): Zakir Sudhmahadev
Lyrics powered by www.musixmatch.com
Link
Other Album Tracks
© 2024 All rights reserved. Rockol.com S.r.l. Website image policy
Rockol
- Rockol only uses images and photos made available for promotional purposes (“for press use”) by record companies, artist managements and p.r. agencies.
- Said images are used to exert a right to report and a finality of the criticism, in a degraded mode compliant to copyright laws, and exclusively inclosed in our own informative content.
- Only non-exclusive images addressed to newspaper use and, in general, copyright-free are accepted.
- Live photos are published when licensed by photographers whose copyright is quoted.
- Rockol is available to pay the right holder a fair fee should a published image’s author be unknown at the time of publishing.
Feedback
Please immediately report the presence of images possibly not compliant with the above cases so as to quickly verify an improper use: where confirmed, we would immediately proceed to their removal.