Khushboo Hai Woh To

زمیں کے حلقے سے نکلا تو چاند پچھتایا
کشش بچھانے لگا ہے ہر اگلا سیارہ
میں پانیوں کی مسافر، وہ آسمانوں کا
کہاں سے ربط بڑھائیں کہ درمیاں ہے خلا

بچھڑتے وقت دلوں کو اگر چہ دکھ تو ہوا
کُھلی فضا میں مگر سانس لینا اچھا لگا
جو صرف روح تھا، فرقت میں بھی، وصال میں بھی
اُسے بدن کے اثر سے رہا تو ہونا تھا

چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہوا کے ساتھ سفر کا مقابلہ ٹھہرا
برس سکے تو برس جائے اِس گھڑی، ورنہ
بکھیر ڈالے گی بادل کے سارے خواب ہوا

خوشبو ہے وہ تو چھو کے بدن کو گزر نہ جائے
خوشبو ہے وہ تو چھو کے بدن کو گزر نہ جائے
جب تک میرے وجود کے اندر اتر نہ جائے
خوشبو ہے وہ تو چھو کے بدن کو گزر نہ جائے

خود پھول نے بھی ہونٹ کیے اپنے نیم وا
خود پھول نے بھی ہونٹ کیے اپنے نیم وا

چوری تمام رنگ کی، تتلی کے سر نہ جائے
خوشبو ہے وہ تو چھو کے بدن کو گزر نہ جائے

اِس خوف سے وہ پیار نبھانے کے حق میں ہے
اِس خوف سے وہ پیار نبھانے کے حق میں ہے

کھو کر مجھے، یہ لڑکی کہیں دکھ سے مر نہ جائے
خوشبو ہے وہ تو چھو کے بدن کو گزر نہ جائے

پلکوں کو اُس کی، اپنے دوپٹے سے پونچھ دوں
پلکوں کو اُس کی، اپنے دوپٹے سے پونچھ دوں

کل کے سفر میں آج کی گردِ سفر نہ جائے
خوشبو ہے وہ تو چھو کے بدن کو گزر نہ جائے

میں کس کے ہاتھ بھیجوں اُسے آج کی دعا؟
میں کس کے ہاتھ بھیجوں اُسے آج کی دعا؟

قاصد، ہوا، ستارہ، کوئی اُس کے گھر نہ جائے
خوشبو ہے وہ تو چھو کے بدن کو گزر نہ جائے
جب تک میرے وجود کے اندر اتر نہ جائے
خوشبو ہے وہ تو چھو کے بدن کو گزر نہ جائے



Credits
Writer(s): Nisar Bazmi, Parveen Shakir
Lyrics powered by www.musixmatch.com

Link