Recitation

رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے
آج کی شب نہ میرے پاس آئے

آج تسکینِ مشامِ جاں کو
دل کے زخموں کی مہک کافی ہے
یہ مہک آج سرِ شام ہی جاگ اُٹھی ہے
اب یہ بھیگی ہُوئی بوجھل پلکیں
اور نمناک ،اُداس آنکھیں لیے
رت جگا ایسے منائے گی کہ خود بھی جاگے
اور پَل بھر کے لیے، میں بھی نہ سونے پاؤں

دیو مالائی فسانوں کی کسی منتظرِ موسمِ گل راجکماری کی خزاں بخت، دُکھی رُوح کی مانند
بھٹکنے کے لیے
کُو بہ کُو ابرِ پریشاں کی طرح جائے گی

دُور افتادہ سمندر کے کنارے بیٹھی
پہروں اُس سمت تکے گی کہ جہاں سے اکثر
اُس کے گم گشتہ جزیروں کی ہَوا آتی ہے

گئے موسم کی شناسا خوشبو
یوں رگ و پے میں اُترتی ہے
کہ جیسے کوئی چمکیلا، رُوپہلا سیال
جسم میں ایسے سرایت کر جائے
جیسے صحراؤں کی شریانوں میں پہلی بارش

غیر محسوس سروشِ نکہت
ذہن کے ہاتھ میں وہ اِسم ہے
جس کی دستک
یاد کے بند دریچوں کو بڑی نرمی سے
ایسے کھولے گی کہ آنگن میرا
ہر دریچے کی الگ خوشبو سے
رنگ در رنگ چھلک جائے گا

یہ دلاویز خزانے میرے
میرے پیاروں کی عطا بھی ہیں
میرے دل کی کمائی بھی ہیں
اِن کے ہوتے ہُوئے اوروں کی ضرورت کیا ہے

رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے
آج کی شب نہ میرے پاس آئے



Credits
Writer(s): Parveen Shakir
Lyrics powered by www.musixmatch.com

Link